نکلا وہ سر کو جھکائے
پشیماں کیسا.....!
نکلا وہ سر کو جھکائے
پشیماں کیسا
جب کہانی ہی نہیں تو
عنواں کیسا؟
جو جاتے ہیں ایسے رُوٹھ
کر
اُن کے لوٹ آنے کا
امکاں کیسا؟
ڈر تو اُن کو ہے جو کچھ
پانا چاہیں
جب خواہش ہی نہیں تو
امتحاں کیسا؟
خون کے پیاسے ہیں یہاں
سبھی ایک دوسرے کے
خُدایا! ہو گیا ہے تیرا
یہ جہاں کیسا؟
گلہ کِیا ہم نے آدرشؔ
سے بے وفائی کا
بولا وعدہ کِیا ہم نے؟
کب؟ کہاں؟ کیسا؟
(آدرش تقیؔ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں