تمام عمر اک یہی کام، محبت کی.....!
تمام عمر
اک یہی کام، محبت کی
لُٹ گئے ہم تمنا میں ضرورت کی
حوادث سے
بھری پڑتی ہے ساری دُنیا
حقیقت بدل
نہ پایا کوئی فطرت کی
اک مدت
ہوئی ہے تجھ سے بچھڑے ہُوئے
بُھلا
نہیں میں اب تک لذت تیری رفاقت کی
جو جہاں
ہے وہیں ٹھیک ہے
کہ نہیں
ہے عادت مجھے شرارت کی
اک شور
سا سُن رہا ہوں میں
آ رہی ہے بُو بستی سے بغاوت کی
جھونپڑی
میں ہی خوش ہوں میں
نہیں ہے
طلب آدرشؔ کھوکھلی عمارت کی
(آدرش
تقیؔ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں