جمعہ، 7 دسمبر، 2012

پھر دیا ہے مجھے اک آزار نیاء.....

پھر دیا ہے مجھے اک آزار نیاء
تماشا وہی ہےمگر بازار نیاء

یاد آتے ہیں پھر وہی دار و رسن
نئے قصّے ہیں دل کے نہ معیار نیاء

کہہ دیا کسی نے مریضِ محبت ہے یہ
ڈھونڈنے نکلا ہے زمانہ اب دلدار نیاء

چراغِ شب گُل ہونے تک تو  رُکو
شوق بدلا ہے اپنا، نہ اصرار نیاء

اک رات کی مہلت دے دو آدرشؔ مجھے
طلوعِ سحر تک تخلیق ہو گا شہکار نیاء

(آدرش تقیؔ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں