جب خیالوں میں بھی اُس کی خبر چلی.....
جب خیالوں میں بھی اُس کی خبر چلی
سنگ میرے رُکی ہر راہگزر چلی
اب آنسو ٹپکتے ہیں ابرِ
گُریزاں کی مانند
بات بھی اُس کی محفل
میں مختصر چلی
فِراق میں بھی آنکھیں
کبھی بوجھل نہیں رہی
نہ ہی کوئی کٹار مُسلسل
دل پر چلی
یُوں لگا جیسے بُلا رہا
ھو کوئی
صبا جب بھی جانبِ سمندر
چلی
دل دھڑک اُٹھا اب کی
بار سرِ شام
خواہشِ نا مُراد جب
بکھر چلی
ہچکیوں کا سُر پھر چھیڑ
رہی ہے دُھن
یُوں شامِ درد تنہا
چھوڑ کر چلی
ابھی تو آغازِ سفر تھا
یہاں
اے زندگی تُو یُوں تنہا
کدھر چلی
قریہء حروف اک نقطے میں سِمٹ چکا اب
سو شاعری بھی میری
آشُفتہ سر چلی
(آدرش تقیؔ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں