ہفتہ، 4 جنوری، 2014

آرزو ہے گھر اپنے آتا تجھ کو دیکھوں..... 

آرزو ہے گھر اپنے آتا تجھ کو دیکھوں
تُو نہیں تو خیر میں تیری خُوشبو دیکھوں

صحراوں  میں بھٹکتا ہوں، ڈھونڈتا ہوں اُسے
مگر کبھی میں اُسے اپنے رُو برُو دیکھوں

بھاگتا ہے وہ مجھ سے، جیسے اندھیرے میں سایہ
پھر کبھی اُس میں مجھے پانے کی جُستجو دیکھوں

اُس کی آنکھوں کی گہرائی سمٹ سی جاتی ہے
سمندر کو اپنے سامنے بنتے آبجو دیکھوں

اُس کا دیدار تو جیسے عبادت ہو
نگاہوں کو اشکوں سے کرتے وضو دیکھوں

کیا ہو گیا ہے تیرے جہاں کو خُدایا!
جس جانب بھی دیکھوں، میں میں، تُو تُو دیکھوں

جانے کیوں دل سے اُٹھنے لگتا ہے دُھواں سا
اوروں سے جب تجھ کو محوِ گفتگو دیکھوں


(آدرش تقیؔ)

4 تبصرے: